ناولٹ ’کیڑو‘ اسی سال پنجابی کے گرمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط کے علاوہ ا ر دو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ ناولٹ کی کہانی اس کے پانچ کرداروں، کیڑو، حلیمہ، نائلہ، دلجیت اور ازابیلا کے گرد گھومتی ہے جو پاکستان یا انڈیا سے آ کر کینیڈا کے شہر سرے میں رہتے ہیں۔ ان کرداروں کے سہارے فوزیہ نے کہانی کا جو جال بُنا ہے اس کے تار برصغیر کے طبقاتی استحصال اور سماجی تضادات سے تخلیق کئے گئے ہیں۔
حلیمہ، جس کا پورا نام حلیمہ ایلس بی بی ہے، کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کی ماں سکھ مذیب سے تھی جسے بٹوارے کے ہنگاموں میں مسلمان بنا دیا گیا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاو نے خود حلیمہ کو پہلے مسلمان، پھر عیسائی اور دوبارہ مسلمان بننے پر مجبور کیا۔ اس طرح وہ خود کوان تمام مذہبی روائتوں کی وارث سمجھتی ہے۔
ناولٹ کا دوسرا بڑا کردار حلیمہ کا بیٹا کیڑو ہے۔ وہ پاکستان میں مذہبی جنو نیوں سے بمشکل اپنی جان بچا کر کینیڈا آ گیا تھا کیوں کہ وہ عیسائی تھا۔ یہاں آ کر محنت مزدوری کرتا رہا اور اب ایک گارمنٹس کمپنی کا مالک ہے۔ اس نے اپنی ماں کو بھی یہیں بلالیا ہے جو اب اس کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اس کا اور اس کے دوستوں کا خیال رکھتی ہے۔
لوگ اکثر اس کے عجیب و غریب نام کی وجہ تسمیہ پوچھتے ہیں جو اسے خود بھی معلوم نہیں۔ کیڑو کی رفیق کار نائلہ جب حلیمہ سے پوچھتی ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کانام کیڑو کیوں رکھا تووہ کہتی ہے: ”ارے بیٹی، ہم کیڑے مکوڑوں کو نیچ سمجھتے ہیں، مگر کیڑے چھپ چھپا کر جینا جانتے ہیں ۔ اپنے مقصد کے پورے، سخت جان بہت چھوٹے، بڑے، رینگتے، چلتے، اڑتے ، قسمیں گنی نہیں جاتیں۔“
اس کی دانست میں کیڑے صرف انسان کے اردگرد ہی نہیں خود اس کے اندر بھی ہوتے ہیں: ”ساتھ یہ کہ میں نے دیکھا، کیڑا ہر جگہ ہے، اندر بھی اور باہر بھی۔ جسم کے جراثیم ہمارے اندر بستے ہیں۔ باہر میں جہاں گئی ہوں، چلتی، اٹھتی، بیٹھتی، گرتی، پڑتی، سوتی، کھاتی، ہر جگہ ہر ٹائم کیڑے میرے ساتھ رہے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے، دنیا آخر مسکینوں کی ہے، مطبل انہی کیڑوں کی ہے۔“
یہاں اس کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ کیڑے اپنی ذات میں گری پڑی مخلوق ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی ایک طرح سے مسکینوں میں شامل ہیں۔ اس کے نزدیک اس نام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بیٹے کے مذہب یا فرقے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمان ہے، ہندو ہے یا عیسائی ہے۔
ناولٹ کی زبان صرف قاری سے ابلاغ کا طریقہ کار ہی نہیں کردار کے ماحول اور اس کی تہذیبی رواتوں کا آئینہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کی ہر کردار کی زبان ایک الگ لہجہ لئے ہوئے ہے۔ زبان کے علاوہ منظر نگاری اور اردگرد کے ماحول کی عکاسی نے کرداروں کو اور بھی نکھار دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کردارنگاری، زبان و لہجے کی سچائی اور منظر نگاری کے امتزاج نے ناولٹ کو زندگی کے حقیقی رنگوں سے قریب تر کر دیا ہے۔
یہ تمام کردار اپنے اپنے ماضی کے نفسیاتی بیگج کے ساتھ ہجرتوں کے نت نئے تجربات سے گزرے ہیں جو ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک خاصیت مشترک ہے۔ جو ناروا سلوک اور پابندیاں انہوں نے اپنے ماحول میں دیکھی تھیں وہ اب ان سے ہزاروں میل پیچھے رہ گئی ہیں۔ ان کا نیا سماج اگرچہ نسلی تفریق، صنفی ناانصافیوں اور مذہبی نفرتوں سے پاک تو نہیں لیکن اب یہ اپنے معاشروں کیطبقاتی اور ذات پات کی ان زنجیروں سے آزاد ہیں جن سے وہ زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
یہ ناولٹ انڈیا اور پاکستان کی اس نسل کی داستان ہے جو بٹوارے کے آس پاس پیدا ہوئی اور پھر کینڈا چلی آئی تھی اور اب یہی اس کا وطن ہے۔ اس کے کردار ہندوستان کی تقسیم کے وہ وارث ہیں جو نہ صرف اپنے سماج کی چکی میں پس کر نکھر گئے ہیں بلکہ ایک نئے سماج کی نسلی اور لسانی تفریق کے مر حلوں سے بھی کامیاب و کامران گزر چکے ہیں۔ ناولٹ کے آخری باب میں یہی سب لوگ اپنے دکھوں اور غموں کی دنیاوں سے پرے دور دیس میں اپنی ایک الگ دنیا بسا کر ایک دوسرے کو اس کی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کر کے زندگی گزار رہے ہیں۔
فوزیہ رفیق کا یہ ناولٹ دیسی اور پردیسی سماجوں کے کئی پس پردہ گوشوں کو آشکار کرتا ہے۔ کہانی میں ذات پات کی تفریق، عورت کا استحصال، مذہبی تشدد، طبقاتی جبر، جنسی رویے اور رنگ و نسل کے تعصبات کے وہ مسائل ہیں جن کا اظہار دیسی ادب میں بہت کم نظر آتا ہے۔
پا نچ دیسیوں کی یہ داستان پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ دھان پان سی وہی لڑکی جس نے اپنی شعوری زندگی کا آغاز لاہور سے کیاتھا، ایک لمبے سفر کی دھوپ چھاوں سے گزر کر کندن بن چکی ہے!
ڈاکٹر قیصرعباس
ناولٹ ’کیڑو‘ اسی سال پنجابی کے گرمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط کے علاوہ ا ر دو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ ناولٹ کی کہانی اس کے پانچ کرداروں، کیڑو، حلیمہ، نائلہ، دلجیت اور ازابیلا کے گرد گھومتی ہے جو پاکستان یا انڈیا سے آ کر کینیڈا کے شہر سرے میں رہتے ہیں۔ ان کرداروں کے سہارے فوزیہ نے کہانی کا جو جال بُنا ہے اس کے تار برصغیر کے طبقاتی استحصال اور سماجی تضادات سے تخلیق کئے گئے ہیں۔
حلیمہ، جس کا پورا نام حلیمہ ایلس بی بی ہے، کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کی ماں سکھ مذیب سے تھی جسے بٹوارے کے ہنگاموں میں مسلمان بنا دیا گیا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاو نے خود حلیمہ کو پہلے مسلمان، پھر عیسائی اور دوبارہ مسلمان بننے پر مجبور کیا۔ اس طرح وہ خود کوان تمام مذہبی روائتوں کی وارث سمجھتی ہے۔
ناولٹ کا دوسرا بڑا کردار حلیمہ کا بیٹا کیڑو ہے۔ وہ پاکستان میں مذہبی جنو نیوں سے بمشکل اپنی جان بچا کر کینیڈا آ گیا تھا کیوں کہ وہ عیسائی تھا۔ یہاں آ کر محنت مزدوری کرتا رہا اور اب ایک گارمنٹس کمپنی کا مالک ہے۔ اس نے اپنی ماں کو بھی یہیں بلالیا ہے جو اب اس کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اس کا اور اس کے دوستوں کا خیال رکھتی ہے۔
لوگ اکثر اس کے عجیب و غریب نام کی وجہ تسمیہ پوچھتے ہیں جو اسے خود بھی معلوم نہیں۔ کیڑو کی رفیق کار نائلہ جب حلیمہ سے پوچھتی ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کانام کیڑو کیوں رکھا تووہ کہتی ہے: ”ارے بیٹی، ہم کیڑے مکوڑوں کو نیچ سمجھتے ہیں، مگر کیڑے چھپ چھپا کر جینا جانتے ہیں ۔ اپنے مقصد کے پورے، سخت جان بہت چھوٹے، بڑے، رینگتے، چلتے، اڑتے ، قسمیں گنی نہیں جاتیں۔“
اس کی دانست میں کیڑے صرف انسان کے اردگرد ہی نہیں خود اس کے اندر بھی ہوتے ہیں: ”ساتھ یہ کہ میں نے دیکھا، کیڑا ہر جگہ ہے، اندر بھی اور باہر بھی۔ جسم کے جراثیم ہمارے اندر بستے ہیں۔ باہر میں جہاں گئی ہوں، چلتی، اٹھتی، بیٹھتی، گرتی، پڑتی، سوتی، کھاتی، ہر جگہ ہر ٹائم کیڑے میرے ساتھ رہے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے، دنیا آخر مسکینوں کی ہے، مطبل انہی کیڑوں کی ہے۔“
یہاں اس کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ کیڑے اپنی ذات میں گری پڑی مخلوق ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی ایک طرح سے مسکینوں میں شامل ہیں۔ اس کے نزدیک اس نام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بیٹے کے مذہب یا فرقے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمان ہے، ہندو ہے یا عیسائی ہے۔
ناولٹ کی زبان صرف قاری سے ابلاغ کا طریقہ کار ہی نہیں کردار کے ماحول اور اس کی تہذیبی رواتوں کا آئینہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کی ہر کردار کی زبان ایک الگ لہجہ لئے ہوئے ہے۔ زبان کے علاوہ منظر نگاری اور اردگرد کے ماحول کی عکاسی نے کرداروں کو اور بھی نکھار دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کردارنگاری، زبان و لہجے کی سچائی اور منظر نگاری کے امتزاج نے ناولٹ کو زندگی کے حقیقی رنگوں سے قریب تر کر دیا ہے۔
یہ تمام کردار اپنے اپنے ماضی کے نفسیاتی بیگج کے ساتھ ہجرتوں کے نت نئے تجربات سے گزرے ہیں جو ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک خاصیت مشترک ہے۔ جو ناروا سلوک اور پابندیاں انہوں نے اپنے ماحول میں دیکھی تھیں وہ اب ان سے ہزاروں میل پیچھے رہ گئی ہیں۔ ان کا نیا سماج اگرچہ نسلی تفریق، صنفی ناانصافیوں اور مذہبی نفرتوں سے پاک تو نہیں لیکن اب یہ اپنے معاشروں کیطبقاتی اور ذات پات کی ان زنجیروں سے آزاد ہیں جن سے وہ زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
یہ ناولٹ انڈیا اور پاکستان کی اس نسل کی داستان ہے جو بٹوارے کے آس پاس پیدا ہوئی اور پھر کینڈا چلی آئی تھی اور اب یہی اس کا وطن ہے۔ اس کے کردار ہندوستان کی تقسیم کے وہ وارث ہیں جو نہ صرف اپنے سماج کی چکی میں پس کر نکھر گئے ہیں بلکہ ایک نئے سماج کی نسلی اور لسانی تفریق کے مر حلوں سے بھی کامیاب و کامران گزر چکے ہیں۔ ناولٹ کے آخری باب میں یہی سب لوگ اپنے دکھوں اور غموں کی دنیاوں سے پرے دور دیس میں اپنی ایک الگ دنیا بسا کر ایک دوسرے کو اس کی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کر کے زندگی گزار رہے ہیں۔
فوزیہ رفیق کا یہ ناولٹ دیسی اور پردیسی سماجوں کے کئی پس پردہ گوشوں کو آشکار کرتا ہے۔ کہانی میں ذات پات کی تفریق، عورت کا استحصال، مذہبی تشدد، طبقاتی جبر، جنسی رویے اور رنگ و نسل کے تعصبات کے وہ مسائل ہیں جن کا اظہار دیسی ادب میں بہت کم نظر آتا ہے۔
پا نچ دیسیوں کی یہ داستان پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ دھان پان سی وہی لڑکی جس نے اپنی شعوری زندگی کا آغاز لاہور سے کیاتھا، ایک لمبے سفر کی دھوپ چھاوں سے گزر کر کندن بن چکی ہے!
ڈاکٹر قیصرعباس
kyu
kyu
Product Details
BN ID: | 2940164124175 |
---|---|
Publisher: | Fauzia Rafique |
Publication date: | 06/25/2020 |
Sold by: | Smashwords |
Format: | eBook |
File size: | 196 KB |
Language: | Urdu |